سماجی معاملات

ہمارے سماجی معاملات بھی اس رزیلی بیماری سے پاک نہیں رہے آج کل سماجی خدمت کا بھی کافی رواج ہے -کچھ لوگ مصیبت زدہ اور ضرورت مندوں کی مدد اور خدمت کرتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے اندر ملک و ملّت کی خدمت کا جذبہ ہے لیکن ان کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں – ہماریمعاشرے میں منافقت کی زندہ مثالیں موجود ہیں -ہمارے تھانے رشوت کا گڑھ ہیں لیکن وہاں لکھا ہوتا ہے کہ” رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ”
ہماری کچہری میں سستے داموں میں گواہ مل جاتا ہے مگر وہاں لکھا ہوتا ہے ” جھوٹی گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے”
ایسے ہی ہماری عدالتوں میں انصاف نیلام ہوتا ہے مگر وہاں بھی لکھا ہوتا ہے” لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو”
ہماری درس گاہیں جہالت بیچتی ہیں مگر وہاں بھی لکھا ہوتا ہے ”علم حاصل کرو, ماں کی گود سے قبر کی گود تک ”
ہمارے ہسپتالوں میں موت بانٹی جاتی ہے مگر وہاں بھی لکھا ہوتا ہے ”اور جس نے ایک زندگی بچائی اس نے گویا سارے انسانوں کو بچایا ”ہمارے بازار جھوٹ,خیانت اور ملاوٹ کے بہت بڑے اڈے ہیں مگر وہاں بھی یہ لکھنا ضروری سمجھا گیا ہے کہ ” جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ”ہم جو لکھتے ہیں وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جو کرتے ہیں وہ ہمارا عمل ہے -جب عمل عقیدے کے خلاف ہو تو اس کا ہی نام منافقت ہے – افراد کی منافقت معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے -جس معاشرے کے لوگوں کا ظاہر وباطن ایک نہ ہو ان کا باہمی اعتماد ختم ہوجاتا ہے -ایسا معاشرہ امن اور خوشحالی سے محروم ہو جاتا ہے -اسی منافقت کی وجہ سے ملک و ملّت کو نقصان پہنچتا ہے-قوموں کی برادری میں ذلّت ورسوائی ہوتی ہے -برآمدات متاثر ہوتی ہے -بیرونی تجارت کم ہوجاتی ہے -قومی ترقی رُک جاتی ہے -صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں -بے روزگاری بڑھتی ہیں – یہ ایک ایسا ناسور ہے جو ہماری جڑیں کھوکھلی کررہا ہے –
کیا آج ہم ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہو رہے؟؟؟ ہم وعدہ کرکے بھول جاتے ہیں.. بات کرتے ہیں تو جھوٹ کی ملاوٹ ضرروی سمجھتے ہیں اور جب کوئی امانت ہمیں سونپی جائے (یہ امانت مال وزر..دفتری, زمینی ضروری کاغذات ہو یا کسی کے راز کی پردہ داری رکھنی ہوں… یہ راز فرد کا ہو, معاشرے کا ہو یا ملک وملّت کا) اس میں جان بوجھ کے خیانت کرتے ہیں اور پھر شرمندہ بھی نہیں ہوتے….. منافقت کرنے والی کی دنیا تو تباہ ہوتی ہی ہے ساتھ وہ اپنی آخرت بھی برباد کرتا ہے ارشادِ ربّانی ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوگے -قرآن میں اس کے لیے درک کا لفظ آیا ہے -عربی میں اِس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی سیڑھی سے نیچے اتر رہا ہو تو سیڑھی کا ہر نچلا پایہ درک کہلاتا ہے -یعنی منافق شخص انسانیت اور زندگی کی سیڑھی پر مسلسل ذلت پستی ہی کی طرف سفر کرتا رہا ہے اور اپنی پستی کے اس سفر کی بنا پر آخرت میں جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ گیا -منافق کی خوراک جہنمیوں کا خون اور پیپ ہوگی -جو انتہائی بد بو دار خوراک ہے -ابھی وقت ہے اپنے آپ کو سدھارنے کا اپنا محاسبہ کرنے… دعا ہے اللہ تعالٰی ہمیں ذلت وپستی کی اِس اِنتہا سے اپنی پناہ میں لے لیں -آمین یا رب العلمین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top